ظُلمة أَوَّل اللَّيل 👣 بقلم ملیحہ چودھری
لاسٹ باب 17
......................
"دادو آپ پریشان نا ہو کچھ نہیں ہوگا کندیل کو.. اُسنے بی جان کے ہاتھوں کو اپنی آہنی گرفت میں لے کر تسلّی بخشی تھی.....
"کارل ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ! وُہ ایک عزم سے بولا تھا.....
پھر وہ پلٹا تھا رحمان چاچو میں کندیل سے ابھی اور اس وقت ہی نکاح کرنے کو تیار ہوں سپاٹ چہرہ لیے وُہ بولا تھا اُسکے چہرے کو دیکھ کر کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اُسکے دماغ میں چل کیا رہا ہے ....
"ٹھیک ہے بیٹا.. !! رحمان صاحب کی مانو جان ہی واپس لوٹ آئی تھی.....
وُہ یہ بول کر باہر نکلتا چلا گیا تھا......
دروازہ کھلنے کی آواز پر کندیل ہوش میں آئی تھی اور جلدی سے برابر میں رکھے سٹول کے پیچھے چُھپ گئی تھی کہی شمع اسکو دیکھ نا لیں......
شمع کے وہاں سے جانے کے بعد وہ شکستہ قدموں سے اپنے کمرے میں آئی تھی.....
اور آ کر بیڈ پر ڈھے گئی تھی.......
"کیا ہوا اینجل ؟ ہواؤں میں گونجتی آواز نے اُسکی سوچوں کے تسلسل کو توڑا تھا......
"دھوکہ ! چیخ مر جواب دیا گیا تھا..... اور پھر خاموشی چھا گئی تھی ہر جگہ .........
اس خاموشی سے اسکو وحشت ہونے لگی تھی.. جسکو کارل کی آواز نے توڑا تھا.......
"ک کس نے دیا دھوکہ؟
"کبھی چور چوری کر کے بتاتا ہے کیا کہ میں نے چوری کی ہے ؟ سوال کے بدلے سوال کیا گیا تھا..
"میں سمجھا نہیں جان ملکہ ؟
کارل نے کچھ وقفہ کی خاموشی کے بعد کہا...
"اوہ ریالی !! جو خود شاطر ہو دوسروں کے جذبات سے کھیلنے والا ہو وُہ ہر کام کرتا ہو بلکہ جسکا نام ہی شیطان ہو وُہ مُجھسے بول رہا ہے کہ میں سمجھا نہیں .....
کندیل نے ہواؤں میں دیکھ کر اُس پر طنز کیا تھا.....
"واقعی اینجل میں سمجھا نہیں ! پھر سے وہی دوہرایا گیا تھا......
"فائن ! میں مان لیتی ہوں کہ آپ نہیں سمجھے ہے لیکن آپ مجھے بتانا پسند کرو گے کہ کیا آپ میرے ساتھ محبّت کی آڑ میں چھلاوا نہیں کر رہے ہیں ؟
اس بار چلاتے ہوئے اینجل کی ہچکیاں بندھ گئی تھی......
"اینجل میں دھوکہ نہیں دے رہا ہوں... کارل تو تڑپ ہی گیا تھا ......
"کیسے مان لوں کہ آپ شہزادی نرگس سے محبّت نہیں کرتے تھے...... اس انکشاف اور تو کارل کی آواز ہی دم توڑ گئی تھی......
ہواؤں کی خانکیاں شانت ہو گئی تھی ہے سوں خاموشی تھی ایک طویل خاموشی .....
"ہے نہ ؟ آپ صرف مُجھے بدلے کی آگ میں حاصل کرنا چاہتے ہیں... اینجل کو کارل کی خاموشی اندر ہی اندر کھا رہی تھی... اب وہ اپنے آنسوؤں کو بہ نے دے رہی تھی.....
شکستہ لحظے میں اُسنے کارل سے کہا تھا.....
"نہیں اینجل نہیں ! وُہ میرا ماضی تھا تُم میرا حال ہو ہاں میں بدلہ لینا چاہتا تھا پر میں اکیس سال تمہارے آنے کا انتظار کیا ہے.....
"کیا فرق پڑتا ہے آپکے لیے تو یہ اکیس سال ڈھائی دن کے برابر ہے ... آنسوؤں کو بے دردی سے صاف کرتے کندیل نے کہا تھا......
"نہیں میں تُم سے عشق کرتا ہوں .. وُہ اپنا یقین دلانا چاہتا تھا..... کیسا عشق ؟ کون سا عشق ؟
اجنبی پن سے کندیل نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ سوالوں کے صورت میں باہر نکالے تھے.......
جبکہ ایک بار پھر آنسوؤں کی لڑیاں گالوں پر سے پھسل کر نیچے کارپیٹ پر گی رہے تھے.......
"حاجتیں عشق ، جنون عشق... جواب دیا گیا آہستہ سے سرگوشی کے انداز میں......
یہ سن کر کندیل کی دھڑکنے بے اختیار تھی جس پر بڑی مشکل سے اُسنے قابو پایا تھا.......
"اچھا ؟
"ہممم !
خاموشی خاموشی بس ہواؤں کے چلنے کی آواز کی سائیں سائیں سنائی دے رہی تھی جبکہ اُن دونوں کے درمیان صرف خاموشی اختیار تھی......
"عشق کرتے ہو نا ؟ آس بھری نظروں سے اُسنے پوچھا تھا
"جان سے زیادہ ! جواب دیا گیا تھا محبّت کے چراغوں کو آنکھوں میں جلائے........
"تو پھر دور چلے جاؤ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے.....
سانسوں کو روک کر کندیل نے زور سے آنکھیں موند تے ہوئے کہا....
"نہیں ں ں ں !! چلایا تھا وہ اسکو ایسا لگا جیسے کسی نے اُسکی جان ہی چھین لی ہو.......
آواز میں اتنا درد اور خوف تھا کہ اینجل بھی کانپ اٹھی تھی
" تت تمہیں جانا ہو گا ! جیسے فیصلہ سنایا گیا تھا...
" میں وعدہ توڑ دوں گا..... اُسنے دھمکی دی ...
"عشق بولتے ہو نہ مجھے تو دیکھتی ہوں کتنا مجھ سے عشق کرتے ہو کتنا نبھانا جانتے ہو .....
اینجل نے کہا...
"میرے لیے صرف خسارہ ہی کیوں ؟ کارل نے آئی آنکھوں میں نمی کو پونچھا تھا....
"اللہ جانتا ہے...
یہ بول کر اینجل جانے لگی تھی جب پیچھے سے اُسکا ہاتھ پکڑا گیا تھا... اینجل کی تو سانسیں ہی رُک گئی تھی دل کی رفتار بڑھ گئی تھی جبکہ آنکھیں اُسنے زور سے بند کر لی تھی.....
"ٹھیک ! تُم چاہتی ہو نہ کہ میں چلا جاؤں تو چلا جاؤں گا......
"لیکن اس سے پہلے میں تمہارا نکاح خود اپنے سامنے کرواؤں گا.......
آخر ایک آخری ضرب تو محسوس کر لوں عشق کا میں بھی تو دیکھوں خود کا عشق کسی اور کی دسترس میں جانے سے کتنا درد ملتا ہے......
میں محسوس کرنا چاہتا ہوں اس درد کو اور محسوس کروانا چاہتا ہوں.......
یہ آخری بات کارل نے اینجل کے بلکل نزدیک ٹر ہوتے ہوئے اُسکے بالوں کو پیچھے سے آگے کے جانب کرتے ہوئے کانوں میں ہلکے سے سرگوشی کی تھی اور پھر ہواؤں میں گُم ہو گیا تھا..............
"کارل ل ل !! وُہ وہی بیٹھتی چلی گئی تھی.... وُہ ایک بار پھر اپنی محبّت کو ہار چکی تھی.....
ہچکیاں لیتے لیتے اسکی آواز بھی دم توڑ گئی تھی...
پورے آسمان میں کالے سیاہ بادل چھا گئے تھے بجلی کے کڑکنے کی آواز کانوں کے پردے کو پھاڑنے کو تیار تھی....
دو محبّت کرنے والوں کو جدا ہوتے دیکھا تو آسمان بھی زور و شور سے رونے لگا تھا......
وُہ عشق ہی کیا
جسمیں درد نہ ہو ملا
حقیقت تو عشق ہی بیان کرتا ہے
جب عشق ، عشق سے جدا ہوتا ہے
.........................💔💔💔
شام کے سائے پھیل رہے تھے ظُلمة أَوَّل اللَّيل کی پہلی رات شروع ہو چکی تھی.... سیّد حویلی کو بہت اچھے سے سجایا گیا تھا.....
سبکے چہروں پر ڈر کی لکیریں تھی .. لیکن اللہ کا نام لے کر وُہ سب اس کام کو کر رہے تھے...
"تُم سب گھبراؤ نہیں اللّٰہ ہے ہم سبکے ساتھ ... بی جان نے کہا جس پر سب نے گردن ہلا دی تھی.....
"جاؤ عائشہ کندیل کو باہر لے آؤ دادو نے ایک لڑکی سے کہا... وُہ لڑکی مسکراتے ہوئے کندیل میں روم کی طرف بڑھ گئی تھی......
محرون رنگ کا ویلویٹ کا لہنگہ پہنے جس پر گولڈن امتیاز کی ایمبرائیڈری ہوئے تھی... اُس پر ہی لوں گھر دار کوٹی تھی وہ بھی پوری کہ پوری ایمبرائیڈری سے بھری پڑی تھی .. ایک سٹائل سے دوپٹہ سیٹ کیا ہوا تھا... گلے میں خوبصورت سا ہار پہنا ہوا تھا ماتھے اور مانگ ٹیکہ لگایا ہوا تھا ناک میں خوب صورت سی نتھ پہن رکھی تھی آنکھوں میں بھر بھر کر کاجل لگائی ہوئی تھی ہونٹوں پر سُرخ گلاب سی لپ اسٹک لگائی ہوئی تھی....
ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رکھی تھی وہ مکمّل دلہن بنی آنسوؤں کو بہ رہی تھی.. دل تھا کہ ڈوبتا ہوا جا رہا تھا جیسے آسمان میں سورج غروب ہونے کے بعد اندھیرا چھا جاتا ہے ایسے ہی اُسکے اندر کا سورج غروب ہو رہا تھا........
"تبھی دروازہ کُھلا اور عائشہ اندر آئی اُسنے اُسکا دوپٹہ ٹھیک کیا اور اسکو نیچے لیے سیڑھیوں پر لے آئی تھی.... پھر اُسکے ارد گرد کئی ساری لڑکیوں کہ گھیرا اکھٹا ہو گیا تھا اور وُہ اُنکے ساتھ کموشی سے نظریں جھکا کر سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگے تھی...
گولڈن اور محرون امتیاز کی شیروانی پہنے شمع ایک شہزادہ ہی لگ رہا تھا جب اُسنے کندیل کو نیچے آتے دیکھ تو جلدی سے اُسکی طرف بڑھا پیچھے سے اُسکا دوست ہوٹنگ لگاتے ہوئے بولا تھا
"اوہ ہو جناب کی بی صبری دیکھو ! جسکو شمع نے نظر انداز کر دی تھی..
تھوڑی دیر بعد ہی نکاح کا دور شروع ہوا تھا کندیل نے دھڑکتے دل کے ساتھ یہاں وہاں نظریں دوڑا کر اسکو تلاشنا چاہا تھا لیکن کوئی بھی نہیں تھا کہی پر بھی............
"مولوی صاحب نکاح شروع کریں.... جیسے ہی بی جان نے کہا ایک دم سے پورے ہال میں ہوائیں چلنے لگی تھی... یہ ہوا تیز سے بھی تیز تر ہوتی جا رہی تھی.........
ان ہواؤں کو دیکھ وہاں موجود ہے شخص گھبرا گیا تھا.... کوئی تو رونا ہی شروع ہو گئے تھے...
"یہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ کسی نے گھبرا کر سوال کیا جس پر اُسکی یہ بول کر خموش کروا دیا کہ کچھ نہیں ابھی شانت ہو جائے گی یہ ہوا بھی..
"رُک جاؤ کارل ایسا نہ کرو ! دل کی زبان میں اینجل نے اپنی محبّت کو حکم دیا تھا اور ایک دم سے ہی ہوائیں رُک گئی تھی
ایک طرف قرآن مجید کی تلاوت شروع ہو گئی تھی تو دوسری جانب نکاح شروع ہو گیا تھا......
شمع اکبر آپکا نکاح کندیل رحمان کے ساتھ بعوج ایک کروڑ روپے حق مہر سکّہ رائج الوقت کیا جاتا ہے
کیا آپکو قبول ہے ؟
کندیل نے نظریں اٹھائی تھی ایک بار پھر .. اس بار بلکل جسٹ سامنے کھڑا تھا جانِ دشمن آنکھوں میں آنسوؤں کو لیے ...
" ہاں قبول ہے
شمع نے جواب دیا
دو عشق کرنے والوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہ نے لگا تھا.....
"کیا آپکو قبول ہے ؟
"ہاں قبول ہے
"کیا آپکو قبول ہے ؟
"ہاں قبول ہے
پھر مولوی صاحب کندیل کی طرف پلٹ تھے....
کندیل رحمان آپکا نکاح شمع اکبر سے بعوج ایک کروڑ روپے حق مہر سکّہ رائج الوقت کیا، کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ؟
اور یہ لمحہ تھا جب کندیل کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے تھے نظریں اپنے عشق پر ٹھہری ہوئی تھی پلکوں کی بعد سے آنسوؤں کی لڑیاں ٹوٹ کر بہ رہی تھی......
کارل نے گردن نا میں ہلائی تھی....
"م میں مر جاؤں گا اینجل اُسکی بھی آنکھیں اشک بار تھی.....
اینجل نے قرب سے آنکھوں کو موند لیا اور دل میں کارل کو پُکارا ...
"اور میں میں چکی ہوں !
اور پھر جواب دیا مولوی صاحب کا
"ہ ہاں ق قبول ہے !
"نہیں ں ں......... کارل نے دل پر ہاتھ رکھ کر چلّایا تھا جسکی چلّاہٹ صرف کندیل نے ہے سنی تھی...
"کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ؟
"مت کرو ایسا اینجل.. ایک بار پھر محبوب نے محبوب سے درخواست کی تھی......
"ہاں قبول ہے...
پھر سے جواب دے کر مناہی کا ثبوت دے دیا تھا اینجل نے ....
کیا آپکو یہ نکاح قبول ہے ؟
میں صدا رہوں گا تمہارے ارد گرد میرا عشق تُم تھی ہو اور ہمیشہ رہو گی......
کارل نے بند آنکھوں سے دل ہی دل میں اینجل سے کہا تھا.....
"ہاں قبول ہے .... یہ سننا تھا کہ کارل کا وجود ایک دم سے فٹ کر راکھ ہو گیا تھا......
"ہاں کارل نے خودکو اپنے عشق پر قربان کر دیا تھا....
سیّد حویلی سے اب کارل کا سایا اُتر گیا تھا لیکن وہاں کی شہزادی کی روح سے ہمیشہ کے لیے چمٹ گیا تھا......
جب قسمت میں ملنا ہی نہیں ہوتا تو پھر ایک جنم لیے لو یا دو ملنا ہی نہیں ہوتا .....
ایسے ہی اُنہونے دو لیے تھے پر جناتوں کی شہزادی تب بھی اپنی محبّت سے نہیں ملی تھی اور اب انسانوں۔ کی شہزادی ہو کر بھی اپنی محبّت سے نہیں مل پائی تھی.......
کیونکہ زندگی میں ہر چیز ملنے کے لیے ہی نہیں آتی کچھ چیزوں کو کھونے کا نام ہی زندگی ہے........
کبھی کبھی جو بات روب سے لڑائی جھگڑوں سے پوری نہیں ہو پاتی وہی کام اگر ہم محبّت کے دائرے میں رہ کر کیا جائے تو وہ آسانی سے بغیر مشکل کے ہو جاتا ہے....
ایسے ہی برسوں سے چلتی ہوئی ایک دشمنی کو اینجل نے محبّت کے دائرے میں رہ کر بڑی آسانی سے ختم کر دی تھی....
بھلے ہی اسکو اُسکی محبّت نہیں ملی تھی لیکن اسکو ایک سکون تھا کہ اب یہ برسوں سے نبھائی جانے والی دشمنی ختم ہو گئی ہے اسکو سکون تھا کہ اب سیّد حویلی کا ہے فرد سکون بغیر کسی خوف کے جی سکتے ہیں......
اور وہ اسمیں ہی خوش تھی....
ا
پنے نام کی طرح اُسنے ہر طرف روشنی کے دیپ جلا دیے تھے... کبھی نہ بجھے والے...
قسمتوں کے دو روپ دھار لیے میں نے
ایک روپ وُہ تھا اور ایک روپ یہ ہے
بچھڑنا جب تھا اور بچھڑ اب بھی گئے
روگ عشق کا تب بھی لازم تھا
اور اب بھی لازم ہی ہے
کیوں شقوے کرو کسی سے
جب قیمت عشق کی ہی یہ ہے
از خود
...........................
ختم شد
..........................
Novel complete ho gayi hai ab aap axhe se padh skte hai .....
Mujhe btayeiga jroor kaisi lgi aapko yeh novel ........
Your author
Maliha Choudhary